Orhan

Add To collaction

کسی مہرباں نے آ کے

کسی مہرباں نے آ کے 
از قلم ماہ وش چوہدری
قسط نمبر5

ضرار گرینی کی بات پر ٹھٹھک چکا تھا۔۔۔۔۔
سیمل کا رویہ تو ابھی بھی کچھ خاص اچھا نہ تھا اسکے ساتھ۔۔مگر پھر بھی اس نے سیمل کی بجائے فصی سے بات کرنے کا سوچا۔۔۔۔۔۔
(فصی کا تعلق پاکستانی سیاسی فیملی سے تھا۔۔۔وہ یوکے اسٹڈی کے لیے آیا تھا 
مگر اسٹڈی کمپلیٹ ہونے پر بھی وہیں
 تھا۔۔۔۔ضرار اور فصی کی پہلی  ملاقات یونی میں ہی ہوئی اور یہ  ملاقات ہلکی پھلکی دوستی میں بدل گئی۔۔۔۔
مگر وہ دونوں ہی ایک دوسرے کا الٹ تھے۔۔۔۔
فصی کے دو شوق تھے۔۔۔شراب اور شباب ۔۔۔۔جبکہ ضرار ان دونوں چیزوں سے کوسوں دور تھا۔۔
مگر پھر بھی وہ دوست تھے۔۔۔۔۔فصی وہاں اکیلا تھا،اس لیے اکثر گھر آتا جاتا رہتا
 تھا۔۔۔۔۔۔کیونکہ گھر میں صرف ضرار 
اور گرینی ہوتے مگر اب سیمل بھی تھی۔۔اسلیے احتیاط ضروری تھا)
ضرار نے فصی سے مل کر باتوں باتوں میں اپنی غیرموجودگی میں آنے سے منع کر دیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج وہ ہوسپٹل آیا تھا سیمل کی لاسٹ سرجری کا اپائنٹمنٹ لینے۔۔۔
ضرار نے شادی کے بعد سیمل کی تین سرجریز کروائیں تھیں۔۔۔۔جس سے سیمل کا چہرہ تقریبًا ٹھیک ہو چکا تھا جو تھوڑے بہت نشان باقی تھے وہ اس چوتھی اور آخری سرجری سے ختم ہو جانے تھے۔۔۔
تین دن بعد کی ڈیٹ لے کر وہ گھر
 آ گیا۔۔۔۔۔۔۔
سیمل کیچن میں تھی۔۔۔۔۔جب وہ آیا
سلام کے بعد وہیں کیچن میں چئیر گھسیٹ کر بیٹھ  گیا۔۔۔گرینی کہاں ہیں۔۔۔۔۔؟؟؟
اپنے روم میں۔۔۔۔مختصر جواب آیا
تم کیا کر رہی ہو۔۔۔؟؟؟
کھانا بنا رہی ہوں نظر نہیں آ رہا کیا۔۔۔۔وہ بےزار ہوئی
اچھا ایک کپ چائے بھی بنا دو کافی تھک گیا ہوں ۔۔۔ضرار نے انگڑائی لی
میں فارغ نہیں ہوں ابھی جب ہوں گی تب بنا دوں گی۔۔۔وہ تڑخ کر بولی
سیمل بات کرنے کا کوئی طریقہ ہوتا ہے اور تم مجھ سے یوں بات کرتی ہو جیسے میں تمہارا ہزبینڈ نہیں بلکہ  سرونٹ ہوں۔۔۔۔
تو مت بات کیا کرو اگر اتنی چبتیں ہیں میری باتیں تو۔۔
فائن مت بناؤ چائے۔۔۔میں مر نہیں رہا تمہاری چائے پینے کو۔۔۔وہ بھی غصے میں آیا
اتنی آسانی سے مرنے والے کہاں۔۔۔؟؟؟
مارنا چاہتی ہو مجھے۔۔۔۔ضرار نے بازو پکڑ کر اسے اپنے سامنے کیا۔
میری بلا سے مرو یا جیؤ مجھے کیا اور چھوڑو میرا بازو۔۔۔۔۔جنگلی 
سیمل نے بازو چھڑوانا چاہا جس میں ضرار کی انگلیاں گڑی ہوئی تھیں۔
تم پھر سے پہلے کی طرح بدتمیز ہوتی جا رہی ہو سیمل۔۔۔۔۔وہ تحمل سے بولا
تو چھوڑ دو پھر ۔۔۔مجھ جیسی بدتمیز کو اور لے آؤ کوئی اپنے جیسی تمیز دار۔۔۔۔۔سیمل بدتمیزی سے بولی
تم جانتی ہو ۔۔۔تم اس وقت کیا کہہ رہی ہو۔۔۔۔؟؟؟
ہاں جانتی ہوں اچھے سے جانتی ہوں کیا کہہ رہی ہوں  اور پورے ہوش سے کہہ رہی ہوں
 کہ دے دو طلاق مجھے اگر۔۔۔
سیمل۔۔۔۔ضرار کا ہاتھ اُٹھا تھا مگر گرینی نے اسکا ہاتھ تھام کر روک لیا تھا۔۔
کیا کر رہے ہو ضرار میں نے ہر گز تمہاری تربیت اسطرح نہیں کی۔۔۔گرینی دکھ سے بولیں
دیکھ لیا ناں آپ نے ۔۔۔۔کہتیں تھیں میرا بیٹا عورت کی عزت کرنا جانتا ہے۔۔۔۔یہ۔۔۔۔یہ جانتا ہے آپ کا بیٹا۔۔سیمل نے چلا کر گرینی سے کہا
چلاؤ مت سیمل تم اسوقت گرینی سے بات کر رہی ہو۔۔
اونہہ۔۔۔دیکھ لوں گی تم سب کو۔۔۔۔جو جونک کی طرح چمٹ چکے ہو مجھ سے۔۔۔۔۔وہ گھور کر کہتی تیزی سے کیچن سے نکل گئی
کیا ہوا تھا جو سیمل اسطرح ری ایکٹ کر رہی تھی۔۔۔۔۔گرینی سیمل کی بدتمیزی پر حیران ہوئیں
گرینی آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے چلیں۔۔۔۔۔روم میں چل کر بات کرتے ہیں۔۔ضرار گرینی کو انکے روم میں لے آیا۔۔۔
لیٹا کر کمبل اوڑھایا۔۔۔
اب بتاؤ کیا ہوا تھا۔۔۔؟؟؟
پتہ نہیں۔۔۔۔وہ بےزار سا بولا
تو پھر نوبت ہاتھ اٹھانے تک کیسے آ گئی
گرینی ڈائیورس کا کہہ رہی تھی وہ۔۔۔۔اتنی چھوٹی سی بات پر وہ اتنی بڑی بات کر گئی۔۔ڈسگسٹنگ۔۔۔میں کیا کیا کر رہا ہوں اس کو خوش رکھنے کے لیے اور وہ ۔۔۔۔وہ بلکل میری ریسپیکٹ نہیں کرتی گرینی۔۔۔۔میں سمجھ رہا تھا وہ مجھ سے انجانے میں ہوئی اس غلطی کو آہستہ آہستہ  معاف کر دے گی
مگر شاید وہ ابھی بھی اسی بات کو لے کر مجھ سے نفرت کرتی ہے جس میں میرا کوئی قصور بھی نہ تھا۔۔۔وہ پریشان سا بولا
ضرار تم نے فصی سے بات کی۔۔۔ضرار کی
 باتوں کے جواب میں گرینی یہ کیا پوچھ رہیں تھیں۔۔۔ضرار نے حیرت سے گرینی کو دیکھا۔۔۔
وہ اصل میں۔۔۔۔۔وہ ہچکچائیں
ایسے ہی پوچھ لیا میں نے۔۔۔۔تم موڈ ٹھیک کرو اپنا میری جان۔۔۔۔۔گرینی نے اسکے تھکے تھکے سے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں لے کر ماتھے پر بوسہ دیا
آئی ایم فائن سویٹ لیڈی۔۔۔۔۔ضرار نے بمشکل مسکرا کر ان کو ریلیکس کیا
             ………………………………………………
پرسوں کی اپائٹمنٹ ہے تمہاری سرجری
 کی۔۔۔۔ضرار نے لیٹتے ہوئے برابر میں لیٹی  سیمل سے کہا
وہ ہر بار ہی سیمل کی بدتمیزی بھلا کر پہل کر لیتا تھا 
  تمہارا احسان نہیں چاہیے اس لیے کوئی سرجری نہیں کروانی مجھے سمجھے۔۔۔۔وہ بدتمیزی سے بولی
سیمل کیوں کر رہی ہو ایسا۔۔۔۔؟؟؟
کیونکہ نفرت کرتی ہوں تم سے اس لیے۔۔۔۔
مگر نفرت کی وجہ۔۔۔۔۔؟؟؟؟
وجہ۔۔۔وہ استہزائیہ ہنسی
تم نہیں جانتے کیا۔۔۔؟؟
سیمل میں اسی وجہ کو سدھار رہا ہوں مگر تم۔۔۔۔
ہاں اب کہو کہ تم نے مجھ سے شادی اسی وجہ سے ترس کھا کر کی تھی۔۔
ایسی کوئی بات نہیں ہے سیمل۔۔۔
تو پھر بتاؤ کیوں کی شادی مجھ سے۔۔۔وہ اٹھ بیٹھی 
سب کسی نا کسی سے شادی کرتے ہیں میں نے تم سے کر لی۔۔۔۔۔
ہمدردی میں ترس کھا کر ہیےناں۔۔۔؟؟وہ طنزیہ بولی
سیمل کیا بچپنا ہے۔۔۔۔ تم جس دن سے آئی ہو ایسے ہی ری ایکٹ کر رہی ہو۔۔۔۔میرے وجود سے  بیزار ہو۔۔۔۔۔جب بھی پاس آتا ہوں تم۔۔۔تم یوں شو کرتی ہو جیسے میں کوئی اچھوت ہوں جو تمہیں چھوئے گا تو تم ناپاک ہو جاؤ گی۔۔۔۔یہ سب جانتے ہوئے بھی میں اگنور کرتا رہا کہ ایک دن تمہیں بھی مجھ سے لگاؤ ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔ مگر تم اب بھی اسطرح ۔۔۔۔۔۔۔
میں نے جان بھوج کر تم پر تیزاب نہیں گرایا تھا جو تم ابھی تک اسی بات کو گھسیٹ رہی ہو۔۔۔۔وہ بھی اکتا گیا تھا اس روز روز کی چک چک سے
مجھے سونا ہے۔۔۔۔۔سونے دو اپنا لیکچر بند کرو۔۔۔۔۔۔سیمل نے کروٹ بدل لی
ضرار غصے سے اسکی پشت کو دیکھتا 
رہ گیا۔۔۔
           ……………………………………………
گرینی کے سمجھانے پر وہ سرجری کے لیے مان گئی تھی۔۔۔
سرجری کے بعد جب سیمل نے اپنا چہرہ آئینے میں دیکھا تو وہ بلکل بے یقین تھی۔۔۔۔ کہ یہ واقعی وہ ہے۔۔۔۔۔
اتنے عرصے بعد اپنے چہرے  کو پہلے کی طرح صاف شفاف ،خوبصورت دیکھ کر وہ بے یقین تھی۔۔۔
بہت اچھی لگ رہی ہو ۔۔۔ضرار ناجانے کب پیچھے آ کھڑا ہوا
جانتی ہوں۔۔۔۔
ہونں۔۔۔۔آج ڈنر باہر کرتے ہیں ۔۔۔کیا خیال ہے۔۔۔؟؟؟
تمہارا خیال ہے اور تم جو مرضی آئے کرو مجھے بلاوجہ ہر جگہ مت گھسیٹا کرو
تم بیوی ہو اس لیے تمہیں  ہی گھسیٹوں گا۔۔۔۔
مگر میرا موڈ نہیں کہیں بھی جانے کا۔۔۔۔وہ بے زاری سے بولی
تو پھر کس کا موڈ ہے۔۔۔۔ضرار شرارت سے پوچھتا اسکے ساتھ بیٹھا
سونے کا۔۔۔۔وہ ضرار کی بات سمجھ کر فورا بولی 
مگر میرا موڈ تو جاگنے اور جگانے کا ہے ۔۔۔کان کے پاس سرگوشی کی۔۔۔۔
مجھے سونا ہے  بس۔۔۔۔۔اسلیے تنگ مت کرنا ورنہ۔۔۔
ورنہ کیا۔۔۔۔؟؟؟
میں گرینی کے روم میں چلی جاؤں گی۔۔دھمکی دی
ہاہاہاہا۔۔۔اوکے سو جاؤ مگر گرینی کو ڈسٹرب مت کرنا۔۔۔
ضرار ہنستا ہوا لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھ گیا۔۔
        …….…………………………………………
گرینی کی طبیعت کافی خراب رہنے لگی تھی اس لیے وہ اپنے کمرے میں محدود ہو کر رہ گئیں تھیں
اور اس بات کا فائدہ سیمل نے بہت اچھی طرح اٹھایا۔۔۔۔۔
وہ انہیں میڈیسن دے کر روز ضرار کے آفس جانے کے بعد گھر سے نکل جاتی اور دو، چار گھنٹے باہر گزار کر واپس آتی۔۔۔۔
وہ کہاں جاتی تھی۔۔۔۔کیا کرتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی نہیں جانتا تھا۔
        ………………………………………………
اچھا فون رکھو۔۔۔۔شاید ضرار آ گیا ہے۔۔۔
دوسری طرف ناجانے کیا کہا گیا کہ وہ ہنسی ارے ہر گز نہیں ڈرتی نہیں ہوں میں
 اس سے۔۔۔۔بس لحاظ  کرتی ہوں۔۔۔۔
ہاں ہاں بابا آ رہی ہوں کل۔۔۔۔۔ پھر بات ہو گی
 بائے۔۔۔۔
کس سے بات کر رہی تھی۔۔۔۔ضرار نے کمرے میں داخل ہو کر پوچھا
فرینڈ سے۔۔۔۔۔مختصر جواب آیا
کس فرینڈ سے ۔۔۔۔اس نے سرسری سا پوچھا
اب تم کیا میری فرینڈز کو جانتے ہو جو بتاؤں تمہیں۔۔۔۔
سیمل میں نے ایسے ہی پوچھا تھا تم سے مگر تم۔۔۔۔۔۔۔
اچھا بس۔۔۔۔وہ بدتمیزی سے کہتی کمرے سے نکل گئی 
پیچھے ضرار اس کے رویے سے اکتاتا واش روم میں گھس گیا۔۔
ضرار کی بھی برداشت کی حد ختم ہوتی جا رہی تھی اب۔۔۔۔
          ………………………………………………
گرینی کی آنکھ کھلی تو انہیں اپنے روم کے کھلے دروازے سے لاؤنج میں سے ہسنے کی آوازیں آئیں۔۔۔انہوں نے کلاک کیطرف دیکھا 
مگر ضرار کے آنے میں ابھی بہت وقت تھا۔۔۔تو پھر کون ہے سیمل کیساتھ۔۔۔۔؟؟؟؟
فصی۔۔۔۔اُنکے دماغ میں جھماکا ہوا
میں نے پہلے بھی روکا تھا۔۔۔۔۔ اس لڑکی کو فصی کیساتھ میل جول مت بڑھائے وہ کریکٹر کا اچھا نہیں مگر پھر بھی اُس سے مل رہی ہے۔۔۔۔۔
گرینی ہمکلامی کرتیں، لڑکھڑاتی دروازے تک گئیں مگر وہاں سے لاؤنج میں نظر آنے والے منظر کو دیکھ کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 وہ زمین بوس ہو چکیں تھیں۔۔۔۔
            ……………………………………………
ضرار کی طبیعت آج کچھ ٹھیک نہیں تھی اس نے آفس سے ہاف لیو لی اور گھر واپسی کے لیے چل دیا۔۔۔۔۔
تقریبًا پون گھنٹے بعد وہ گھر کے سامنے تھا۔۔۔
لاک اوپن کیا اور تھکا تھکا سا چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا آگے بڑھا۔۔۔۔۔
مگر لاؤنج کے دروازے پر پہنچ کر وہ ساکت ہو چکا تھا۔۔۔۔
               ……………………………………………
ضرار نے لاؤنج میں جو منظر دیکھا اسکے بعد اسکی غیرت بلکل گوارا نہیں کرتی تھی کہ وہ سیمل جیسی کریکٹر لیس لڑکی کیساتھ زندگی گزارتا۔۔۔۔
اس نے لاؤنج میں سیمل اور فصی کو دیکھا تھا۔۔۔۔وہ دونوں ایک دوسرے میں مگن اس حد تک قریب تھے کہ شاید بیچ میں ایک انچ بھی فاصلہ ہو۔۔۔۔
فصی ہوش وحواس سے بیگانہ سیمل کو مختلف زاویوں سے چھونے میں مگن تھا اور سیمل وہ بھی اس سارے عمل میں برابر کا کردار  ادا کر رہی تھی۔۔۔
ضرار کے  پاؤں جیسے زمین نے جکڑ لیے تھے وہ آگے بڑھنا چاہ رہا تھا ۔۔۔۔وہ سیمل کو مار دینا چاہتا تھا۔۔۔۔وہ فصی کو ۔۔۔۔۔۔
انففف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ پوری طاقت سے چلایا
سیمل جو فصی کی گال پر ہونٹ رکھ چکی تھی۔۔۔۔۔۔اس آواز پر ہوش میں آتی اچھلی
کیا ہو رہا ہے یہ سب۔۔۔۔؟؟؟وہ لال انگارہ آنکھیں لیے آگے بڑھا
تم۔۔۔۔تم سیمل اس حد تک گر گئی کہ ۔۔۔۔ اور فصی تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
تمہیں شرم نہیں آئی دوستی کی آڑ میں یہ گندا کھیل کھیلتے ہوئے۔۔۔۔یہ بیوی تھی میری کوئی کال گرل نہیں۔۔۔۔
شٹ اپ۔۔۔۔۔۔وہ اپنے لیے لفظ کال گرل سن کی چلائی
یو شٹ اپ بلڈی بچ ۔۔۔وہ دھاڑتا ہوا سیمل کے بال پکڑ چکا تھا۔۔۔
بتاؤ کب سے۔۔۔۔کب سے کھیل رہی تھی یہ گھناؤنا کھیل۔۔۔۔بولو۔۔۔۔ورنہ اسی زمین میں گاڑ دوں گا تمہیں۔۔۔۔ضرار نے اسکے بالوں کو جھٹکا دیا
سیمل کی چیخ بلند ہوئی۔۔۔۔چھوڑو مجھے جنگلی، وحشی۔۔۔۔۔چھوڑو۔۔۔۔۔
فصی پلیز ہیلپ۔۔۔۔وہ چلائی
ضرار لیو ہر۔۔۔۔آئی سیڈ لیو ہر۔۔۔۔فصی آگے بڑھا
ہٹو پیچھے یہ میرا اور اس کا معاملہ ہے تم سے بھی نپٹ لوں گا میں۔۔۔حرام زادے
اوئے ۔۔۔۔گالی مت دے ورنہ۔۔۔۔فصی نے دھمکی دی
ورنہ کیا ۔۔۔۔کیا کرو گے۔۔۔ضرار سیمل کو جھٹکتا فصی کی طرف بڑھا
لسن ضرار ۔۔۔۔میں اور سیمل ایک دوسرے کو  لائک کرتے ہیں اورایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔۔۔۔اس لیے تم سیمل کو۔۔۔۔۔۔وہ رُکا
لے جاؤ اسے ابھی اور اسی وقت۔۔۔ میرا اس سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔۔
میں ضرار شاہ اپنے پورے ہوش و حواس  میں سیمل فاروق تم کو طلاق دیتا ہوں۔۔۔۔طلاق دیتا۔۔۔۔۔طلاق دیتا ہوں
نکلو یہاں سے دو، چار دن میں ڈائیورس پیپرز تمہارے بوائے فرینڈ کے گھر پہنچا دوں گا۔۔۔۔نکلو۔۔۔۔ضرار سیمل کو گھسیٹا باہر گیٹ کی طرف بڑھا اور اُسے گیٹ سے باہر دھکا دیا۔۔۔۔۔اس گھر میں خالی ہاتھ آئی تھی اور ایسے ہی دفعان ہو گی اور کوشش کرنا کہ زندگی میں کبھی میرے سامنے مت آؤ۔۔۔۔۔۔ورنہ شاید۔۔۔۔ضرار شاہ تمہیں زندہ نہ چھوڑے۔۔۔۔۔۔ضرار نے دیوار پر مکا مارا۔۔۔
اب اس نے فصی کیطرف دیکھا۔۔۔۔۔جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔
ایک مرد اسی عورت کو عّزت بناتا ہے جو اسکی عزت کی حفاظت کرنے والی ہو ، اس سے وفا کرنے والی ہو۔۔۔۔۔ 
مگر یہ عورت ۔۔۔۔۔اس نے سیمل کیطرف انگلی کی۔۔۔۔یہ عورت اس قابل نہیں کہ ضرار شاہ اسکو مزید اپنی  عزت بنائے رکھتا۔۔۔۔۔اس کیساتھ لائف گزارتا۔۔۔۔کیونکہ یہ مجھے۔۔۔۔ ضرار شاہ۔۔۔۔۔ کو  ڈیزرو نہیں کرتی۔۔۔۔اسکی لائف میں  تم جسے مرد  کو  ہی ہونا چاہیے۔۔۔۔
چلے جاؤ اسے لے کر۔۔۔۔۔۔جاوووووؤ۔۔۔۔وہ دھاڑتا  کھٹاک سے گیٹ بند کر گیا۔۔۔
اب وہ زمین پر بیٹھا گھٹنوں میں سر دیے رو رہا تھا۔۔۔۔۔
ضرار شاہ رو رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ زندگی میں پہلی بار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
مگر شاید یہ پہلی بار ہی آخری بار بھی 
تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

   3
0 Comments